حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں نمائندۂ ولی فقیہ کے جانشین حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ شیخ غلام عباس رئیسی نے شبِ شہادتِ امیرِ کائنات حضرت علی علیہ السلام کی مناسبت سے منعقدہ مجلسِ عزا سے خطاب کے دوران، امام علی علیہ السلام کو اسلامی حکومت قائم کرنے اور معاشرے میں عدل و انصاف کو رائج کرنے کے سلسلے میں درپیش مشکلات اور عالمی اور پاکستان کے حالات پر تفصیلی گفتگو کی۔
انہوں نے پاکستان کی موجودہ صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جب پاکستان میں بعض حلقوں کی جانب سے انقلاب لانے کی باتیں ہوتی تھیں تو ہمیں خیال آتا تھا کہ کون سا گروہ ہے جو انقلاب لائے گا اور کون اس انقلاب کی حفاظت کرے گا، کیونکہ انقلاب شعار اور نعروں سے نہیں آتا، بلکہ انقلاب کے لئے شعار اور نعروں کے ساتھ ساتھ بصیرت، اعلی درجے کا تقویٰ، عمل، بیداری اور مقاومت کی ضرورت ہوتی ہے۔
استاد غلام عباس رئیسی نے پاکستانی سابق وزیر اعظم عمران خان کی اقتدار کے لئے سیاسی جدوجہد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے سابق وزیر اعظم نے ایسے نعروں کو اٹھایا ہے کہ جن کی ہمیں توقع تک نہ تھی، کیونکہ ہم نے انہیں نعروں کی وجہ سے شہادتیں پیش کیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج ظاہراً ملتِ تشیع کا نعرہ پوری قوم کا نعرہ بنا ہے اور ملتِ تشیع کی فکر قومی اور عالمی سطح پر پھیل رہی ہے، البتہ منافقت کے اس پر آشوب دور میں منافقین کمین گاہوں میں موقع کی تلاش میں موجود ہیں، لہذا ملتِ تشیع کو بیداری اور بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی بھی گروہ میں ضم نہیں ہونا چاہئے۔
پاکستان میں نمائندۂ ولی فقیہ آیۃ اللہ بہاؤالدینی کے جانشین نے عالم اسلام کے طرز حکومت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عالم اسلام میں زیادہ تر مغربی تعلیمی اداروں سے تربیت یافتہ لوگ برسر اقتدار آتے ہیں، اسی لئے عالم اسلام کو نمایاں ترقی نہیں ملی، کیونکہ مغرب نہیں چاہتا کہ اس کے مقابلے میں کوئی دوسرا ترقی حاصل کرے۔
علی علیہ السلام کو درپیش مشکلات کیا تھیں؟
علامہ غلام عباس رئیسی نے امام علی علیہ السلام کی حکومت کو درپیش مشکلات کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ علی علیہ السلام کی حکومت کو درپیش مشکلات میں سے پہلی مشکل، عوام کی جہالت تھی اور یہ مشکل آج بھی ہے۔ دشمن اسی نادانی کے ذریعے سے مسلمانوں کو اسلام اور اسلامی رہبروں کے خلاف استعمال کرتا رہا ہے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے، لہذا مسلمانوں کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے حکومتِ علی علیہ السلام کو درپیش دوسری مشکل منافقین کو قرار دیا اور مزید کہا کہ اسلامی حکومت اور نظام عدل کے قیام کی راہ امام علی علیہ السلام کو درپیش مشکلات میں سے دوسری مشکل منافقوں کی منافقت تھی۔ الٰہی اور اسلامی اہداف اور انبیاء و اولیاء علیہم السلام کے پاکیزہ مقاصد کے حصول کی راہ میں منافقین ہمیشہ ایک بڑی رکاوٹ بن کر موجود رہے ہیں۔ نماز جمعہ میں سورۂ منافقین کی تلاوت کو اس لئے مستحب قرار دیا گیا ہے تاکہ مسلمان اسلامی اہداف کی راہ میں حائل اس بڑی رکاوٹ اور مشکل کی طرف متوجہ رہیں اور ان کی منافقانہ چالوں میں گرفتار ہونے سے ہشیار رہیں۔
حوزہ علمیہ امام خمینی پاکستان کے پرنسپل نے نہج البلاغہ خطبہ نمبر 194 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس خطبے میں امام علی علیہ السلام نے منافقین کی نشانیوں اور علامتوں کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے اور آنحضرت نے انسانوں کو قرب الہی اور کمال کی منزل تک پہنچنے کے لئے تقویٰ و ایمان جیسے دو پروں کا ذکر کرنے کے بعد منافقین سے بچنے اور ہشیار رہنے پر زور دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امام عالی مقام نے منافقین کی نشانیوں اور علامتوں سے لوگوں کو آگاہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ رنگ بدل بدل کر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں، ان کا ظاہری وضع قطع اچھا ہوتا ہے مگر ان کے دل بیمار ہوتے ہیں، ان کے چال چلن مخفی ہوتے ہیں اور ان کی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن سے لوگوں کو جھوٹی تسلی ملتی ہے، لیکن افعال و کردار لاعلاج بیماری کی مانند ہوتے ہیں، یہ معاشرے میں آفات اور بلا پھیلاتے ہیں اور امید کو مایوسی میں بدلتے ہیں۔
علامہ غلام عباس رئیسی نے مذکورہ بالا خطبے کی مزید تشریح کرتے ہوئے کہا کہ منافقین کے پاس ہر دل کو جذب کرنے کا وسیلہ موجود ہوتا ہے، ہر غم کے لئے ان کے پاس آنسو ہوتے ہیں اور ہر حق کے لئے ان کے پاس باطل ہوتا ہے، یعنی ہر حق کے مقابلے میں وہ ایک باطل کو معاشرے میں لاتے ہیں، تاکہ اس باطل کے ذریعے سے لوگوں کو حق اور راہ حق سے روکا جاسکے۔
منافقین کی نشاندہی کرتے ہوئے استاد حوزہ علمیہ امام خمینی نے کہا کہ منافقین کے پاس ہر زندہ کے لئے ایک قاتل ہوتا ہے، ہر دروازے کے لئے ان کے پاس چابی ہوتی ہے اور ہر رات کے لئے ان کے پاس چراغ ہوتا ہے الغرض ہر بات اور ہر مقام پر لوگوں کو گمراہ کرنے اور انہیں راہ حق سے دور کرنے کے لئے ان کے پاس جاذب اور پرکشش شیطانی وسائل اور حربے موجود ہوتے ہیں۔
حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ غلام عباس رئیسی نے منافقین کی قسمیں بیان کرتے ہوئے کہا ہے قران میں منافقین کی دو قسموں کا ذکر ہوا ہے جن میں سے ایک وہ منافقین ہیں جو زبان سے ایمان و اسلام کا اظہار کرتے ہیں، لیکن ان کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان موجود نہیں ہوتا، اس کے مقابلے میں منافقین کا دوسرا گروہ وہ ہے جن کے بارے میں قران ارشاد فرماتا ہے کہ جب وہ نماز پڑھتے ہیں تو سستی کے ساتھ پڑھتے ہیں اور خدا کو بہت کم یاد کرتے ہیں، یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ جس انسان کا ایمان کمزور ہو، خدا کو بہت کم یاد کرتا ہو اور اس کے وجود پر ایمان اور خدائی رنگ کا غلبہ نہ ہو، بلکہ بے ایمانی اور شیطانی رنگ کا غلبہ ہو وہ بھی قران کی نگاہ میں منافق ہے۔
پاکستان کے مایہ ناز عالم دین نے مسلمانوں میں منافقین کی پیدائش سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مدینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کامیابیاں دیکھ کر منافقین کا پیدا ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ مکہ میں بھی آپ کی کامیابی کے امکانات دیکھ کر منافقین پیدا ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ منافقین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مسلمانوں کا رشتہ توڑنے کے لئے مسجد ضرار بنائی، جنگ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے خیانت کی۔ آپ کی فوج کو توڑا، جنگ خندق میں عمر بن عبدود کی بہادری کے قصے سناکر مسلمانوں کو مایوس کیا اور ہمیشہ ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اذیت دیتے رہے، لیکن یہ سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے بعد منافقین کی طرف سے کسی کے خلاف کوئی اقدام اور سازش نہیں ہوئی۔
انہوں نے علی علیہ السلام کی اسلام دوستی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ علی علیہ السلام اسلام کو بچانا چاہتے تھے، اسی لئے بعض حکمرانوں کو حکومتی معاملات میں مشورے دیتے تھے، جبکہ اس کے برعکس آپ علیہ السلام کے مخالفین سلطنت و حکومت حاصل کرنا چاہتے تھے اور انہیں اسلام سے کوئی سر و کار نہیں تھا، بلکہ اقتدار کے بھوکے تھے۔